جہادِ میدانِ شاملی:
حجة الاسلام امام محمد قاسم نانوتوی رحمة اللہ علیہ١٨٥٧ ء کی جنگ آزادی میں مسلّح جہاد میں شریک ہوئے۔ اس جہاد آزادی کا مقصد انگریز حکومت کو شکست دیکر ہندوستان میں اسلامی اقتدار کی واپسی تھا۔مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعدیہ جہادچند خداترس نفوس کی ایک کاوش تھی جو کسی صورت میں بھی یہ گوار ہ کرنے کو تیار نہیں تھے کہ ہندوستان پر قائم ایک ہزارسالہ اسلامی اقتدارکا اس طرح خاتمہ ہو جائے اور یہ ملک دارالاسلام سے دارالکفر بلکہ دارالحرب بن جائے۔ ان نفوس مقدسہ کے اس مسلح جہادکا محرک حضرت شاہ عبدالعزیز نوراللہ مرقدہ کا وہ تاریخی فتوی بھی تھا جس کے تحت حضرت شاہ صاحب نے ہندوستان کو دارالحرب قرار دیکر جہادبالسیف کی فرضیت کا اشارہ دیاتھا۔ دراصل حضرت الامام محمد قاسم نانوتوی اور جہاد شاملی میں شامل مجاہدین کی یہ جماعت امّت مرحومہ کی طرف سے فرض کفایہ ادا کر رہی تھی۔
امام محمد قاسم نانوتوی قدس سرہ العزیز کے رویائے صادقہ اور انکی تعبیر:
دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث اوّل حضرت مولانا یعقوب نانوتوی صاحب نے حضرت الامام کے لڑکپن کا ایک خواب بیان کیا ہے کہ حضرت الاما محمد قاسم نے خواب میں دیکھا تھا کہ ''میں خانۂ کعبہ کی چھت پر کھڑاہوں اور مجھ سے نکل کر ہزاروں نہریں جاری ہورہی ہیں ''۔حضرت الامام کے استاذمولانامملوک علی نانوتوی نے اس خواب کی تعبیر یہ دی تھی کہ ''تم سے علم دین کا فیض بکثرت جاری ہوگا۔'' اسی طرح امامنے ایک اور خواب دیکھا تھا کہ''میں خانۂ کعبہ کی چھت پر کھڑاہوںاور میرے پاؤں کے نیچے سے نہر جاری ہے جو کوفہ کی طرف سے آرہی ہے''۔ ان دونوں ہی خوابوںکی تعبیر دارالعلوم دیوبندکی تاسیس کی شکل میں پوری ہوئی،اور کوفہ کی طرف سے آنے والی نہردارالعلوم کے مسلکِ حنفی کی طرف اشارہ ہے جس مسلک کے شارح اور امین بانئی دارالعلوم حضرت الامام محمد قاسم نانوتویبذات خود تھے۔
میلہ خدا شناسی اور امام کی عظیم الشان تقریر:
میلہ خدا شناسی یا تحقیق مذاہب غالباًعیسائی مشنریوں کے منصوبوں کا ایک حصہ تھا۔یہ جلسے علیحدہ علیحدہ مقامات پر منعقد کئے جاتے تھے اور الحمد للہ ہر بار علماء اسلام ان جلسوں میں عیسائی مشنریوں کے عزائم کو ناکام کرنے میں کامیاب ہوتے تھے۔ میلہ خدا شناسی پادری نولس اور منشی پیار ے لال کے اشتراک سے مئی ١٨٧٦ء میں چاندپور میں دریا کے کنارے منعقد ہوا۔امام نانوتوی عیسائی پادریوں اور ہندو پنڈتوں کے فتنے کی سرکوبی اور اسلام کی حقانیت کو بیان کرنے کے لئے اپنے تلامذہ شیخ الہند مولانا محمود حسن،مولانا فخرالحسن گنگوہی،حکیم رحیم اللہ بجنوری رحمہم اللہ وغیرہ کے ساتھ ٦مئی ١٨٧٦ء کی صبح شاہ جہاں پور تشریف لائے۔امام نانوتوی کی تقریر غیر معمولی تھی۔چونکہ ہر جگہ ایسے لوگ ضرور موجود ہوتے ہیں جو علم کی گہرائی اور تقریر کے وزن کو تول سکتے ہیںاور دیانت دارانہ صاف رائے دیتے ہیں ایسے ہی لوگوں میں کئی ہندو پنڈتوں نے امام کی تقریر پر داد تحسین دی ۔ہندو پنڈتوں کے یہ کلمات تحسین گفتگوئے مذہبی کے آخر میں شائع ہوئے ہیں۔
بعد میں بھی میلہ خدا شناسی منعقد کیا گیا اور امام نانوتوی پھر اس میں تشریف لے گئے اور آپ نے مقارنة الادیان کے موضوع پر اپنی علمی دسترس کا لوہا منوایا۔مقارنة الادیا ن کے موضوع پر آپ کی تقاریر اور پوری روداد مباحثہ شاہ جہان پور کے نام سے مولانا فخرالحسن گنگوہی نے مرتب کی۔ یہاں یہ وضاحت بلکہ انکشاف ضروری ہے کہ اصل تقریر خود حضرت الامام نے لکھی تھی اور وہ ہی اس مجموعہ میں شامل ہے۔
تحریک دیوبند کے اسباب:
حضرت شاہ عبد الغنی مجددی قدس سرہ العزیز امام شاہ ولی اللہ نوراللہ مرقدہ کی مسند درس پر متمکن آخر ی محدث تھے۔ ١٨٥٧ء میں ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد جب دہلی کا ولی اللہی مرکزِعلم تاراج ہو گیا تو شاہ عبد الغنی مجددی نے حجاز کی طرف ہجرت فرمائی اور اسکے بعد گویا علوم اسلامیہ کی ترویج و اشاعت کے تمام دروازے بند ہوتے ہوئے دکھائی دینے لگے۔ ہندومذہبی تحریکوں اور انگریز حکومت کے تنخواہ دار عیسائی مبلغین نے اسلام کے خلاف پروپیگنڈے کی جنگ شروع کردی ۔ انگریز حکومت کی مکمل پشت پناہی حاصل کر رہی عیسائی مشنریوں نے اسلام کے خلاف مسلمانوں میں عیسائی مذہب کی تبلیغ عام کردی۔ ہندوستان میں اسلام کی شمع بجھتی ہوئی دکھائی دینے لگی اور ایسا محسوس ہونے لگا کہ خدانخواستہ ہندوستان میں اندلس کی تاریخ دوہرائی جائیگی۔ اسی تاریک دور میں علوم ولی اللہی کے آخری خوشہ چیں حضرت امام محمد قاسم نانوتوی اور آپکے رفیق ِدرس امام ربانی فقیہ العصر علامہ رشید احمد گنگوہی نوراللہ مرقدہ مینارۂ نور بن کر ابھرے۔ امام محمد قاسم نانوتوی قدس سرہ العزیز نے شاملی کے میدان میں جس مسلح تحریک اور جنگ آزادی کی قیادت فرمائی تھی اسکے ناکام ہونے کے بعدحضرت الامام نے اپنی بصیرت ایمانی سے اس بات کا ادراک کر لیا تھا کہ دین اسلام کے تحفظ کا واحد ذریعہ ا ب صرف دین کی ترویج و اشاعت اورایسے خداترس علماء اور مبلغین اسلام پیدا کرنا ہے جو مرد آہن بن کر سنت اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اتباع کرتے ہوئے دین متین کو ہندوستان کے کونے کونے میں اس انداز سے پھیلا دیں کہ ہر مسلمان اپنے آ پ میں تبلیغ اسلام کی ایک عظیم الشان تحریک ہو۔
امام نانوتوی ١٨٥٧ء کی جنگ آزادی میں برطانوی استعمار پر ایک زبردست ضرب لگاچکے تھے، جو معرکہ شاملی کے نام سے تاریخ ہند کا ایک روشن باب ہے۔ انگریزکی زبردست قوت کے سامنے اگرچہ یہ مہم ناکامی پر منتج ہوئی اور ہندوستان پرمسلم اقتدارکا خاتمہ ہو گیامگر حجة الاسلام حضرت الامام محمد قاسم نانوتوی کے دل ودماغ اور فکر ونظر نے ہمت نہیں ہاری،انہوں نے اپنی حکمت عملی کو تبدیل کیا اور میدان جہاد سے ہٹ کر میدان علم کاانتخاب فرمایا۔ آپکا مقصد اب دینی مدارس کے قیام کے ذریعے مسلمانوں کو ان کے دین و ایما ن سے جوڑے رکھنااور باہر کی مسموم ہوا سے ان کے دل ودماغ اور عقائدکو متاثر ہونے سے بچانا تھا۔
تاریخ دارلعلوم دیوبند(ص۔١٤٩،ج ۔اول)میں درج ہے کہ:
''چنانچہ اس وقت بنیادی طور پر اس نقطئہ نظر کو سامنے رکھا گیاکہ مسلمانوں کے دینی شعور کو بیدار رکھنے اور ان کی ملّی شیرازہ بندی کے لئے ایک دینی وعلمی درسگاہ کا قیام ضروری ہے، اس مرکزی فکر کی روشنی میں حضرت مولانامحمد قاسم نانوتوی اور ان کے رفقاء خاص مولانا ذوالفقارعلی صاحب ، مولانا فضل الرحمن صاحب اور حاجی محمد عابد صاحب نے یہ طے کیا کہ اب دہلی کے بجائے دیوبند میں دینی درسگاہ قائم ہونی چاہئے۔''
اس تاریخی فیصلے کے بعد ١٥محرم الحرام ١٢٨٣ہجری،(٣٠مئی١٨٦٦ئ)کو دیوبند کی چھتہ مسجد میں ایک استاذملّامحمود اور ایک شاگرد محمود(شیخ الہندمولانامحمود حسن )کے ساتھ اس مدرسہ اسلامیہ دیوبند کی تاسیس عمل میں آئی، مدرسہ اسلامیہ دیوبند کی تاسیس چونکہ ایک اسلامی علمی انقلاب کا اعلان تھا اس لئے امام نانوتوی قدس سرہ العزیز نے مدرسے کو انگریز حکومت کے عتاب سے بچائے رکھنے کے لئے مدرسے کی تاسیسی حرکات وسکنات سے اپنے آپکو دور رکھا اور تا حیات مدرسے میں کسی بھی عہدے کو قبول نہیں فرمایا۔اپنی بصیرت و حکمت سے مدرسے کی ترقی کے لئے آپ اسکے سرپرست اوّل بن کر رہے جو کہ کوئی باقاعدہ عہدہ نہیں تھا ۔
دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا ابو القاسم نعمانی مدظلہ العالی کے الفاظ میں(حجة الاسلام الامام محمد قاسم نانوتوی حیات، افکار،خدمات، ص٣٤٨):
دارالعلوم کی تاریخ بتاتی ہے کہ دارالعلوم کا نقطۂ آغاز حضرت حاجی عابد حسین صاحب کایک بیک فراہمیٔ سرمایہ کے لئے اٹھ کھڑے ہونا ہے اور جب مالی اعتبار سے یہ اعتماد ہوا کہ اس سے ایک سال تک ایک چھوٹا سا دینی مدرسہ چلایا جا سکتا ہے تب حضرت نانوتوی کو مطلع کیا گیا کہ ہمارے اور آپکے درمیان جو دینی مدرسہ قائم کرنے کے سلسلے میں گفتگو ہوا کرتی تھی اب اسکی ایک شکل ہو گیٔ ہے، آپ فوراً کسی عالم کو بھیج دیں کہ مدرسے کا کام شروع کردیا جائے،آپنے ملّا محمود دیوبندی کو ١٥روپئے ماہانہ کی تنخواہ مقرر کر کے بھیج دیا اور چھتہ مسجد میں دیوبند کے معززین کی موجودگی میں ایک استاد اور ایک طالب علم سے ایک دینی مدرسے کا افتتاح کر دیا گیا۔''
حضرت الاما م قدس سرہ العزیز میرٹھ میں رہ کر مدرسے کے تمام احوال و کوائف سے صرف واقف ہی نہیں تھے بلکہ مدرسے کی مستقل ترقی اور اسے ایک عالمی ادارہ بنانے کی تدابیر میں منہمک تھے۔دارالعلوم کا پہلاجلسۂ دستاربندی صرف آپکے مشورے کے مطابق ہی عمل میں آیا تھا اور اسی موقع پر حضرت الامام نے ایک قطعۂ اراضی خرید لیا تھا۔
مولانا ابولقاسم نعمانی مہتمم دارالعلوم دیوبند مزیدلکھتے ہیں:
''حضرت نانوتوی نے ساری ذمہ داریاں جو حضرت حاجی صاحب ادارے کے تئیں انجام دیتے تھے پھر ان ہی کے سپرد کردیں اور خود اپنی ذات کو عملاً اس سے علیحدہ رکھا جب کہ اب دارالعلوم ٹھیک حضرت نانوتوی کے منشاء کے مطابق ایک عالمی دینی یونیورسٹی ہونے کے پہلے اسٹیج پر آچکا تھا۔ اب آپ کو خود اسکی سرگرمیوں میں پوری طرح شریک ہو جانا چاہئے تھا ،تاکہ آئندہ ہر کام جو کہ دارالعلوم کی ترقی اور توسیع کے لئے ضروری ہے اپنے خاکہ کے مطابق بروئے کار آئے۔ لیکن آپ نے عجلت پسندی سے کام نہیں لیا بلکہ آپ کے سامنے وہ تمام مصلحتیں تھیں جو سادہ دل حضرت حاجی صاحب کی دنیاوی تعلقات سے یکسوئی کی وجہ سے آپ کے سا منے نہیں تھیں۔ ''