دارالعلوم دیوبند کی ابتداء تعمیر:
حضرت مولانا سید میاں صاحب اپنی مشہور تصنیف 'علمائے حق اور ان کے مجاہدانہ کارنامے' میں رقم طراز ہیں کہ:
''بلاشبہ دیوبند میں پاک طینت بزرگوں کی ایک جماعت تھی جس نے ایک مکتب کی بنیاد ڈالی،مگر جس مقدس بزرگ نے معمولی مکتب کے خاکے پر دارالعلوم جیسی عظیم الشان انقلابی درسگاہ کی بنیاد رکھی وہ حجة الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم صاحب کی ذات گرامی تھی۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجا سکتا کہ دارالعلوم کے پر شوکت تصور سے حضرت حاجی صاحب کا ذہن یکسر خالی تھا۔چنانچہ جب دارالعلوم کی تعمیر کا مسٔلہ در پیش ہوا تو حاجی صاحب نے سختی سے مخالفت کی ۔حاجی صاحب کا اصرار یہی تھا کہ جامع مسجد کی سہ دریاں جو اسی خیال کے پیش نظر بنائی گئی تھیں کافی ہیں۔'' (ص٧٤)
٢ذی الحجہ ١٢٩٢ہجری بروزجمعہ نمازکے بعد جامع مسجد میںمقامی و بیرونی حضرات کا بہت بڑا اجتماع ہوا، جس کی اطلاع اشتہار کے ذریعے پیشگی دی جا چکی تھی ۔ حجة الاسلام امام محمد قاسم نانوتوی قدس سرہ العزیز نے تقریر فرمائی اور آخر میں اعلان کیا کہ سب حضرات تشریف لے چلیں تاکہ مدرسے کا سنگ بنیاد رکھا جائے۔
''حضرت حاجی عابد حسین صاحب چونکہ جامع مسجد کی سہ دریوں کو مدرسے کے لئے کافی سمجھتے تھے انہوں نے اس وقت بھی مخالفت کی ۔ چنانچہ جب مجمع مدرسہ کی بنیاد گاہ پر جا رہا تھا حضرت حاجی صاحب الگ ہو کر مسجد چھتہ میں تشریف لے آئے۔ لیکن حجة الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم صاحب کو اپنے ایک رفیق کی ناگواری اور کبیدگی کب گواراہو سکتی تھی۔ آپ بھی پیچھے پیچھے مسجد چھتہ میں پہونچ گئے اور حاجی صاحب سے پکارکر فرمایا۔ اجی صاحب آپ توہمارے بڑے اور ہم سب آپ کے چھوٹے ہیں اور آپ نے ان چھوٹوں کے ساتھ کیا بے رخی اوربے توجہی برتنی شروع فرمادی۔کچھ ان الفاظ کا ایسا اثر حاجی صاحب پر پڑا کہ بے اختیار ہو کر گر پڑے اور اتناروئے کہ اواز نکل پڑی اور کہا کہ مولاناللہ میرا قصور معاف فرمائے ۔ حضرت نانوتوی نے حضرت حاجی صاحب کو اٹھا کر گلے لگالیا اور فرمایاحاجی صاحب آپ کیا فرما رہے ہیں آپ توہمارے بڑے ہیں ،بزرگ ہیں۔پھر حضر ت حاجی صاحب کو لیکر بنیاد پر پہونچے جہاں تمام تیاریاں مکمل ہوچکی تھیں۔ ''(ص٥٥)۔
امام محمدقاسمکی درس حدیث کا طریقہ:
حجة الاسلام امام محمد قاسم نانوتوی برصغیر ہندوپاک میں درس حدیث میں استنباط کے مخصوص طریقے کے بانی ہیں۔امام نانوتوی نے درس حدیث کے اس مخصوص طریقے کی بنیاد ڈالی جس میں حنفیہ کے اثبات و ترجیح اور تنقیحات وتشریحات کا وہ انداز پنہاں ہے جودارالعلوم دیوبند کا علوم حدیث میں طرۂ امتیاز بن چکا ہے ۔برصغیر ہند میں ١٣ویں صدی ہجری تک فقہی آراکوہی کافی سمجھا جاتا تھا۔امام نانوتوی کا سب سے اہم کارنامہ یہ ہے کہ انہوںنے حنفی فقہ کو حدیث کا تابع کیا جو کہ اب تک نہیں تھا۔ مولانا ظفرتھانوی امام نانوتویکے طریقۂ درس حدیث کے بار ے میں تحریر فرماتے ہیں۔''مولانا(قاسم نانوتوی)بڑے دعوے کے ساتھ فرمایا کرتے تھے کہ اقوال ابو حنیفہ کو حدیث کے موافق ثابت کرنے کا میں ذمہ لیتا ہوںلیکن تخریجات فقہا ء کا میں ذمہ دار نہیں۔''
مولانا ظفر تھانوی حکیم الامت حضر ت مولانا اشرف علی تھانویکے حوالے سے مزیدارشاد فرماتے ہیں، ''جن لوگوں نے مولانا کی تقریر درس حدیث سنی ہے وہ اس کے شاہد ہیںکہ واقعی مولانا اقوال ابو حنیفہ کی تقریر ایسی کرتے تھے جس کے بعد وہ بالکل حدیث کے موافق نظر آتے تھے۔حدیث کو قول ابو حنیفہ کے مطابق نہیں کرتے تھے کہ اس کا خلاف اد ب ہونا ظاہر ہے بلکہ قول ابو حنیفہ کو حدیث کے مطابق کر دیا کرتے تھے۔''
جس طریقۂ درس حدیث کو امام محمدقاسم نانوتویاور بعد میں آپ کے شاگرد رشید شیخ الہند حضرت مولانا محمودحسن دیوبندینے رواج دیااور پروان چڑھایا وہ مسلک وفقہ حنفیہ کی تشریحات کا واحد ذریعہ بن کر مقبول ہوگیا۔بعد میں یہی طریقۂ در س حدیث برصغیر ہند کے تمام مدارس کے لئے ناگزیر بن گیااور مدارس دینیہ کے طریقۂ درس کا اٹوٹ حصہ بن کر اس حد تک رائج ہوگیا کہ اب اس سے کسی قسم کا اعراض ناممکن ہے۔
حضرت الامام محمد قاسم نانوتویکے مشہور تلامذہ
امام نانوتویکے شاگردوں میں سرفہرست دارالعلوم دیوبند کے تلمیذ اول شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی قدس سرہ العزیز کا نام آتاہے۔ شیخ الہند نے امام نانوتوی سے علوم حدیث پڑھی۔ ١٢٨٩ہجری میں امام نانوتوی نے انہیں دستار فضیلت سے نوازا۔شیخ الہندمولانا محمود حسن دیوبندی اپنے استاذامام نانوتویکی رفاقت میں١٢٩٤ہجری میں پہلی بار حج بیت اللہ کی سعادت سے سرفراز ہوئے۔اسی سفر میں امام نانوتویکے استاذشاہ عبدالغنی مجددی سے شیخ الہند کو سند حدیث ملی اور امام نانوتویکے پیرومرشد سیدالطائفہ حاجی امداداللہ مہاجر مکّی رحمة اللہ علیہ سے بیعت ہوئے۔شیخ الہند وراثت ِعلمیہ قاسمیہ کے سب سے بڑے امین ہوئے۔ مولانا محمود حسن نے تحریک آزادی میں نمایا کردار ادا کیا، اسکے علاوہ حدیث اور فقہ حنفی کی گراں قدر خدمات انجام دیں اور قرآن کریم کا اردو ترجمہ کیا۔ علمائے دیوبند کاعلمی سلسلہ اکثر و بیشتر شیخ الہند کے ذریعے ہی حجة الاسلام امام محمد قاسم نانوتوی تک پہونچتا ہے۔
امام کے دوسرے خاص شاگرد مولانا فخر الحسن صاحب گنگوہی ہوئے ہیں۔ مولانافخر الحسن صاحب نے امام نانوتویکے علوم و افادات کی حفاظت اور ترتیب و تحریر و اشاعت میں نہایت گراںقدر خدمات انجام دیں ۔مولانا فخر الحسننے حدیث کی بھی گراں قدر خدمات انجام دیں۔ سنن ابو داؤد کی تصحیح کی اور اس پر اس کے علاوہ سنن ابن ماجہ پرحاشیہ لکھا۔
امام کے تیسرے مشہورشاگرد مولانا احمد حسن امروہی رحمة اللہ علیہ تھے۔آپ پر حضرت الامام کی خاص نظر تھی۔ اس وقت کے مشہور محدثین علامہ احمد علی محدث سہارنپوری ،حضرت شاہ عبد الغنی مجددی اور حضرت قاری عبدالرحمن پانی پتی سے اجازت حدیث حاصل کی۔امام نانوتوی سے بیعت ہوئے اور سیدالطائفہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی سے اجازت خلافت حاصل کی۔
ان تین مخصوص شاگردوں کے علاوہ امام کے دیگر شاگرد بھی ہوئے ہیں۔
حجة الاسلام امام محمد قاسم نانوتوی کی تصانیف:
امام محمد قاسم نانوتوینے مختلف موضوعات پر اپنا قلم اٹھایا ۔ آپ کی تصانیف نہایت علمی اور تحقیقی ہیں۔آپکی تصانیف علم کلام سے لبریز ہیں۔ اسکے علاوہ آپ نے اپنی تصانیف میں جدید فلسفہ ٔ اسلامی کی بنیاد رکھی۔ علم کلام کی گہرائی اور فلسفۂ دین کے سبب حضرت الامام کی تصانیف عام فہم نہیں ہیں۔ یہاں تک کہ علماء کا وہ طبقہ جو علم ِکلام پر گہری نظر نہیں رکھتا اس طبقے کے لئے بھی امام نانوتوی کی تصانیف کو سمجھنا آسان نہیں ہے۔ امام نانوتوی کی باقاعدہ تصانیف کی علمی نوعیت اور علمی حلقے میں انکے مقام کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کے ذاتی مکتوبات گرامی ہی کس قدر علم کی گہرائی لئے ہوئے ہیں، اکثر مکتوبات گرامی ہی بعد میں تالیفات اور تصانیف کی شکل میں شائع بھی کئے گئے اور انکو شائع کرنے والے ان مکتوبات کے مکتوب الیہ ہی ہیںجو ان مکتوبات کے انتہائی اعلی علمی مندرجات سے بے پناہ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔
مولانا نورالحسن راشد کاندھلوی کے الفاظ میں(قاسم العلوم حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی،احوال و آثاروباقیات ومتعلقات ص٦٩١):
''علمی موضوعات پر جو گرامی نامے تحریر فرمائے ہیںانکے مباحث میںبڑا تنوع اور وسعت ہے، ان میں اسرار دین و شریعت کی گفتگوہے،تفسیر و حدیث کے نکات کی گرہ کشائی فرمائی گئی ہے،فقہی مسائل بھی زیر قلم آئے ہیں۔تراویح و قرأت ضاد(ض)،جمعہ اور اس دور میں موضوع بحث بنے ہوئے مسائل پر بھی توجہ فرمائی گئی ہے۔ہندوستان کی شرعی حیثیت اور اس کے دار الحرب ہونے نہ ہونے اور یہاںعقود فاسدہ پر بھی اظہار خیال فرمایا گیا ہے۔شرک و بدعت کے کلیدی مباحث کو بھی واضح کیا گیا ہے،مختلف دینی فرقوں کے نظریات کا بھی جائزہ لیا گیا ہے،امکان نظیر کے واضح دلائل تفصیل سے لکھے ہیں،امتناع نظیر کے ماننے والوں کے دلائل کا علمی تجزیہ فرمایا ہے۔ردشیعت پر بھی خاص توجہ ہے،خلافت وامامت اور باغ فدک وغیرہ کے مشہور اختلافی موضوعات کا بھی علمی،عقلی جائزہ لیاہے۔مسلمانوں کے بگاڑ و زوال کے اسباب کا ذکر ،اوراپنوں کی اندرونی کمزوریوں پر بھی کہیں کہیں احتساب کیا ہے۔غرض بیسیوں موضوعات و مباحث ہیں جو ان مکتوبات میں زیر قلم آئے ہیں، لیکن ہر ایک کی جامعیت، مضامین کی فراوانی اور دلائل کی گہرائی وگیرائی کا یہ عالم ہے کہ ہر تجزیہ منفرد اور ہر بحث حرف آخر معلوم ہوتی ہے۔''
حضرت الامام کی زیادہ تر تصانیف کتب و رسائل کی شکل میں شائع ہو چکی ہیں۔اور کچھ تصانیف مخطوطات کی شکل میں محفوظ ہیں۔ شائع ہو چکی تصانیف کا تذکرہ حسب ذیل ہے:
١۔بخاری شریف تصحیح وحواشی(طباعت اول ١٢٦٤ھ): امام کے استاذمحترم حضرت مولانا احمد علی محد ث سہارنپوریکے حکم پر الامام نانوتوی قدس سرہ العزیزنے بخاری شریف کے آخری ٣ پاروں کے حواشی کا تکملہ محض ١٧ سال کی عمر میں فرمایا تھا۔
٢۔آب حیات(طباعت اول ١٢٩٨ھ)
٣۔اجوبۂ اربعین(طباعت اول ١٢٩١ھ)
٤۔الاجوبة الکاملہ فی الاسولة الخاملة(طباعت اول ١٣٢٢ھ)
٥۔الدلیل المحکم علی قراة الفاتحة للمؤتم(طباعت اول١٣٠٢ھ)
٦۔توثیق الکلام فی الانصات خلف الامام(طباعت اول١٣٠٢ھ) اس اشاعت کے آخر میں ایک فتوی بھی شامل ہے کہ غیر مسلم کے ذبح کئے ہوئے گوشت کا کیا حکم ہے۔دارالعلوم دیوبندکے شیخ الحدیث مولانا سعید احمد پالنپوری صاحب مدظلہ العالی نے الدلیل المحکم اورتوثیق الکلام کی مشترک شرح ''کیا مقتدی پر فاتحہ واجب ہے؟'' لکھی ہے۔
٧۔اسرار قرآنی(طباعت اول١٣٠٤ھ)
٨۔انتباہ المومنین(طباعت اول١٢٨٤ھ)
٩۔انتصارالاسلام(طباعت اول١٢٩٨ھ)
١٠۔تحذیر الناس (طباعت اول١٢٩١ھ)یہ کتاب حضرت الامام قدس سرہ العزیز کی معرکة الآرا ء تصانیف میں سے ایک ہے جسکا موضوع ختم نبوت ۖہے۔ مگر یہ کوئی باقاعدہ تالیف نہیں تھی۔ یہ ایک ذاتی مکتوب تھا جو امام نے اپنے قریبی عزیز اور معاصرمولانا محمد احسن نانوتویکے ایک سوال کے جواب میں لکھا تھا۔مولانا احسن صاحب کو معقولات اور علم کلام پردسترس حاصل تھا لہذاامام نانوتوی نے فلسفہ دین اور کلامیات کے امتزاج کے ساتھ یہ جواب لکھاتھا اور اس بات کا کوئی خدشہ نہیں تھا کہ مولانا محمد احسن صاحب کو اس کے عنوانات اور بلند پایہ علمی بحث کو سمجھنے میں کوئی دشواری ہوگی۔ اور ایسا ہوا بھی۔ اس مکتوب کی بلندپایہ علمی بحث مولانااحسن صاحب کے ہی شایا ن شان تھی۔مولانا اس مکتوب سے اتنے متاثر ہوئے کہ اسے امام نانوتویکو مطلع کئے بغیرتحذیر الناس کے نام سے شائع کردیا۔