اس کے شائع ہونے کے بعد چند ممتاز علماء نے (اہل علم کے اصول کے مطابق) تحذیر الناس کے مندرجات کی تحقیق کے لئے خود بانیٔ دارالعلوم دیوبند امام محمد قاسم النانوتویکو مکتوب لکھے۔جن کے تشفی بخش جواب لکھ کر امام نانوتوی نے ان کو مطمئن کیا اور ان جید علماء نے تحذیر الناس کے بلند پایہ علمی بحث کو سمجھنے میں ہوئی غلطی کے لئے معذرت بھی کی۔مگر ایک مختصر سا طبقہ جو مولوی عبدالقادربدایونی کی سرکردگی میں کام کر رہا تھااور ولی اللہی مکتب فکر اور اس حلقے کے علماء کی تردید و مخالفت میں سرگرم عمل تھا اس نے امام نانوتویکے خلاف بھی اپنی روش پر چلتے ہوئے انتہائی خیانت ومنافقت کے ساتھ غیر ذمہ داری کا ثبوت پیش کیا۔امام نانوتوی کے خلاف فتوے اور رسالے شائع کئے ۔ان فتووں اور رسالوں کا علم اور دیانت سے دور کا بھی رشتہ نہیں ۔ بعد میں اسی مسئلے کو انتہائی خیانت کے ساتھ جاہل اور بدعتی فرقہ رضاخانیہ بریلویہ کے بانی مولوی احمدرضا خان بریلوی نے علماء دیوبند کے خلاف تکفیری مہم کے لئے استعمال کیا۔ حالانکہ تحذیر الناس ختم نبوت پر اب تک کی سب سے معرکة الآراء تصنیف ہے ،جس کے بعد تکمیل نبوت کے عنوان پر کسی بحث کی ضرورت پیش نہیں آتی۔لیکن مخالفین اور معاندین جو امام نانوتوی کے بلند پایہ علمی طریقۂ بحث سے بالکل ناواقف ہیں اور اس مقام ِعلم سے کوسوں دور ہیں انہوںنے امام کی اس معرکة الآراء تصنیف کو بالکل الٹا معنی پہنا کر امام پر نعوذ باللہ ختم نبوت کے انکار کا انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور منافقانہ الزام عائد کیا ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
١١۔تحفہ لحمیہ(طباعت اول بلاسنہ،طباعت دوم١٣١٢ھ)
١٢۔تصفیة العقائد(طباعت اول١٢٩٨ھ)
تقریر دل پزیر(طباعت اول١٢٩٩ھ)
١٤۔تقریر ابطال جزو لایتجزیٰ: یہ جزء لایتجزیٰ کے ابطال پر حضرت الامامکی اس تقریر کی ترجمانی ہے جو امامنے رامپورمیں ایک جلسہ عام میں کی تھی۔حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نے یہ تقریر اس جلسے میں حاضر کسی شخص سے سنی تھی اور اس کو اپنے الفاظ میں مرتب کر کے صدرا کے حاشیے پر شائع کر دیا تھا۔
١٥۔جواب ترکی بہ ترکی(طباعت اول١٢٩٦ھ)
١٦۔براہین قاسمیہ توضیح، جواب ترکی بہ ترکی(طباعت اول ١٣٨٤ھ)
١٧۔حجة الاسلام(طباعت اول١٣٠٠ھ)
١٨۔تتمہ حجة الاسلام(طباعت اول١٢٨٩ھ)
١٩۔حق الصریح فی اثبات التراویح(طباعت اول بلا سنہ)
٢٠۔قبلہ نما(طباعت اول١٢٩٨ھ)
٢١۔قصائد قاسمی(طباعت اول١٣٠٩ھ)
٢٢۔گفتگوئے مذہبی(طباعت اول١٢٩٣ھ)
٢٣۔مباحثہ شاہ جہاں پور(طباعت اول١٢٩٩ھ)
٢٤۔مصابیح التراویح(طباعت اول١٢٩٠ھ)
٢٥۔مناظرہ عجیبہ(طباعت اول بلاسنہ)
٢٦۔ہدیة الشیعہ(طباعت اول١٢٨٤ھ): اس معرکة الارا تصنیف میں حجة الاسلام امام محمد قاسم نانوتوی نے کتب حدیث کے مراتب و طبقات اور اصول تنقید کی تحقیق امام الہند شاہ ولی اللہ محد ث دہلوی کے نظریات کی روشنی میں فر مائی ہے۔
امام نانوتویکے غیر مطبوعہ نادر مخطوطات
١۔اوراق زائد قبلہ نما(تاریخ کتابت ١٣١٤ھ): قبلہ نماعلم کلام کے موضوع پر امام نانوتویکا نادراور انتہائی دقیق علمی شاہکارہے،اس پوری کتاب کو اپنی بلندپایہ علمی بحث کے سبب امام نانوتویکی مشکل ترین تصنیف تسلیم کیا جاتاہے۔اوراق زائد قبلہ نمایاقبلہ نما کے ایک باب کو انتہائی مشکل ہونے کے سبب طبع ہونے سے قبل ہی مصنف موصوف یعنی امام نانوتوی اور دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث اول حضرت مولانایعقوب نانوتوینے شائع کرنے سے روک دیا تھا۔یہ نسخہ پہلے پھلاودے میں محفوظ تھا اور بعد میں مولانا عبدالغنی صاحب کے نبیرگان ڈاکٹر سید محمد خالد اور انکے برادر محترم سید مطلوب صاحب کی عنایت سے 'مفتی الٰہی بخش اکیڈمی'کاندھلہ میں موجود ہے۔
٢۔تنویر النبراس علی من انکر تحذیر الناس(کتابت١٣٠٩ھ)امام نانوتویکے عظیم علمی شاہکار تحذیر الناس پر جب ہرکس وناکس نے اپنی رائے دینی شروع کردی تھی تو انہیں میں ایک قول فصیح نام سے رسالہ مولوی فصیح الدین (حلقۂ بدایوں)نے تحذیر کے مندرجات پر بطور بحث لکھا تھا۔ امام نانوتوی نے قول فصیح کے جواب میں اسی پر اپنا جواب درج فرما یا تھا۔ اسے تنویر النبراس یا رد قول فصیح کے نام سے جانا جاتاہے۔یہ غیر مطبوعہ ہے اور اس وقت پھلاود ے میں محفوظ ہے۔ امام نانوتوی کی خود تصنیف کردہ تحذیر کی شرح مناظرۂ عجیبہ منظر عام پر موجود ہے۔
٣۔رسالہ تقریر حدیثفضل العالم کفضلی علی ادناکم(کتابت بلاسنہ) : امام نانوتوی کے اس رسالے کا سید الطائفہ حاجی امداداللہ مہاجر مکی قدس سرہ العزیزکے ایک خط میں ذکر آیا ہے۔ مکتوب بنام حکیم ضیاء الدین میں حاجی صاحبارشاد فرماتے ہیں:
''مکرر یہ کہ وہ رسالہ کہ جس میں مولوی محمد قاسم صاحب کی تقریر در تفسیر حدیث فضل العالم کفضلی علی ادناکمتھی، وہ مجھ سے گم ہو گیا ،اس رسالے کی نقل کراکر ضرور بھیج دینا۔''
٤۔مکتوبات قاسمی قلمی(مرتب مولانا عبدالغنی پھلاودہ،کتابت١٣٢٢ھ)
عظیم قاسمی علمی میراث:
حجة الاسلام امام محمد قاسم نانوتوی کو اللہ تبارک وتعالی نے اپنے خصوصی کرم و فضل سے نوازا تھا۔ علم وعمل کے میدان میں ایک عظیم الشان مجدد کی حیثیت سے اسلامی دنیا آپ کوہمیشہ یاد رکھے گی۔ امام الہند شاہ ولی اللہ دہلوی کی اسلامی علمی وراثت کے محافظ ہونے کے سبب حضرت الامامکا مقام یگانہ ہے،دارالعلوم دیوبند جیسے عظیم اسلامی ادارے اور اس کے علاوہ کئی اور دینی مدارس کے بانی ہونے کی حیثیت سے امام کی فوقیت مسلم ہے۔لیکن اس کے ساتھ ہی امامکو اللہ تعالی نے ایک اور عظیم نعمت سے سرفراز فرمایا اور وہ ہے آپ کے نہایت ہی لائق و فائق علمی صلبی ورثائ۔آپ کے بعد آپ کے مسند علم پر جلوہ افروز ہونے والے آپکے لائق و فائق فرزند ارجمند حافظ الدین و الملةمولانا محمد احمد صاحب نانوتوی رحمة اللہ علیہ نے اپنی لیاقت اور نسبت کے ذریعے دارالعلوم دیوبند کو عالمی ادارہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔حا فظ صاحب نے دارالعلوم دیوبند کے مسند اہتمام پر ٤٠ سال تک جلوہ افروز رہتے ہوئے دارالعلوم دیوبند کی تمام ابتدائی عمارات کی تکمیل فرمائی۔ اسکے علاوہ حافظ صاحب صوبۂ دکن کے مفتیٔ اعظم کے عہدے پر بھی جلوہ افروز رہے۔اور امام نانوتوی کے اس عظیم المرتبت فرزند کو نظام حیدرآباد کے ذریعے 'شمس العلمائ' کے بھاری بھرکم خطاب سے بھی نوازا گیا جسے انہوںنے قبول نہیں فرمایا۔ امام نانوتوی کے پوتے اور حافظ الدین والملة کے فرزند رشید حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمة اللہ علیہ نے علمی حلقے میں عظیم الشان مقام حاصل کیا۔امام نانوتویکے اس عظیم اور مقرر بے مثال پوتے کو دارالعلوم دیوبند کا 'معمار ثانی' کہا جاتا ہے۔امام نانوتویکے علوم کے شارح ہونے کے ساتھ مسلکِ دیوبند کے سب سے عظیم ترجمان کی حیثیت سے حضرت حکیم الاسلام کا مقام مسلم ہے۔ علما ئے دیوبند میں حکیم الاسلام کو عظیم الشان مقرر تسلیم کیا جاتا ہے۔ خطبات حکیم الاسلام جو کہ حکیم الاسلام کی تقار یر کا مجموعہ ہے اور اسکے علاوہ آپکی دیگر تصانیف اسرار شریعت کا خزانہ ہونے کے علاوہ مسلک علمائے دیوبند کی ترجمان ہیں۔حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب دارالعلوم دیوبند کی تاریخ میں سب سے لمبی مدت تک یعنی ٥٣ سال تک منصب اہتمام پر فائز رہے۔ حضرت حکیم الاسلام نے دنیا کے مختلف گوشوں میں جا کر دارالعلوم دیوبند کی خدمات سے اہل علم کو متعارف کرایا وہیں ہندوستان میں مسلمانوں کے شرعی معاشرتی قانون کے تحفظ کا سب سے عظیم الشان کارنامہ انجام دیا۔ہندوستان میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈکی تاسیس حکیم الاسلام کاامت مسلمہ پر وہ عظیم احسان ہے جسے قیامت تک فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
دارالعلوم کی ١٥٠ سالہ تاریخ میں تین چوتھائی حصہ خانوادۂ قاسمیہ کی بے لوث خصوصی خدمات کا مرہون منت ہے۔اگر امام نانوتویفکر دیوبند کے بانی اور بنیاد ہیں تو انکے فرزند رشید حافظ الدین والملة دارالعلوم کی مرکزی عمارتوں کے معمار اور دارالعلوم دیوبند کو عالمی ادارہ بنانے کی راہ پر چلانے والے فرد واحد ہیں ،اور امام کے عظیم المرتبت پوتے حکیم الاسلام اپنے دادا کی اس علمی میراث کے درحقیقت 'معمارثانی' ہیں جس نے نصف صدی سے زائد ایام پر محیط اپنے دور اہتمام میں دارالعلوم دیوبند کووقار کی بلندی اور اس کی عظمت ورفعت کے نصف النہار پر پہونچادیا تھا۔
علاوہ ازیںحجة الاسلام امام نانوتوی کے پڑپوتوں اور حکیم الاسلام کے دو فرزندوں خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی اور آپ کے براد ر محترم حضرت مولانا محمد اسلم صاحب قاسمی دامت برکاتہم علوم حدیث و تفسیر میں اپنا اہم اور اعلی مقام رکھتے ہیں ۔فی الحال حضرت مولانا محمد سالم قاسمی صاحب مدظلہ بلاشبہ پورے مکتبہ فکر دیوبند کو امام نانوتوی اور تمام اکابر علمائے دیوبند کی فکرو بصیرت اور علمی وراثت سے جوڑے رکھنے والی واحد کڑی ہیں۔ پوری روئے زمین پر حکیم الامت مجدد ملت حضرت مولانا اشر ف علی تھانوی کے شاگرد رشید ہونے کا فی الحال یہ شرف صرف مولانا محمد سالم صاحب قاسمی دامت برکاتہم کو ہی حاصل ہے۔اس طرح الحمد للہ علم کا وہ بحر بیکراں جوامام نانوتوی کے 'ہاتھوں کی انگلیوں' سے جار ی ہوا تھا اور وہ تحریک جس کا مقصد ہندوستان میں اسلام کی شمع کو روشن رکھنا تھااسے ان کے انتہائی لائق و فائق علمی صلبی ورثاء نے جاری و روشن رکھا، اور یہی وجہ بھی بنی کہ حق سبحانہ وتعالی نے خانوادۂ علمیہ قاسمیہ کو ناپید ہو چکے خانوادۂ ولی اللہی کا متبادل بناکر ہندوستان کے مسلمانوں کاناخدا بنادیا۔
وفات:
محض٤٨ سال کی قلیل عمر اور عالم جوانی میں گلشن ولی اللہی کے اس بطل جلیل وعظیم مجدد ملت نے ١٨٨٠ء مطابق ١٢٩٧ھ میں ضیق النفس کے مرض میں مبتلا ہوکر داعی اجل کو لبیک کہا۔امام محمد قاسم نانوتوی کی وفات پر ہندوستان میں صف ماتم بچھ گیا۔آپ کے معاصرین نے آپ کی وفات کو ایک مشفق باپ کی وفات کے مترادف قراردیا جس کے بعد اس کی اولاد ہمیشہ کے لئے یتیم ہو جاتی ہے۔ آپ کی تدفین آپ کے ہی بوئے ہوئے شجر طوبی دارالعلوم دیوبند کے قرب وجوار میں عمل میں آئی۔یہی قبرستان جہاں آپ عین سنت کے مطابق ایک کچی قبر میں آسودۂ خواب ہیں 'قبرستان قاسمی' کے نا م سے مشہور ہے اور سیکڑوں صلحائ،علماء و دانشوران ملت نیز عام مسلمانوں کی ابدی آرام گاہ ہے۔
اس میں نہیں کلام کہ دیوبند کا وجود
اس ہند کی زمین پہ احسان مصطفی
گونجے گا چار کھونٹ اس نانوتوی کا نام
بانٹا ہے جس نے بادۂ عرفان مصطفی
شورش کاشمیری