حجةاللہ فی الارض شیخ الاسلام والمسلمین المجدد
امام محمد قاسم النانوتوی نوراللہ مرقدہ
بانیٔ دارالعلوم دیوبند
سقوط دہلی کے بعد سامراجی ہندوستان میں سب سے پہلی اسلامی علمی تحریک اورام المدارس دارالعلوم دیوبند کے بانی، ہندوستان میں مجددین ِدین وملت امام مجدد الف ثانی اور امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ قدس سرہم کے بعد تیسرے مجدد، علومِ ولی اللہی کے امین ومحافظ اورشارح، جدید فلسفہ ٔاسلامی کے بانی، اکابر علمائے دیوبند کے قدوہ ،ہندوپاک میں ہزاروں مدارس و مکاتیب کے روحانی پیشوا،علم کلام اور فلسفۂ اسلامی میں تحذیر الناس،قبلہ نمأ، تصفیة العقائد،مناظرۂ عجیبہ،آب حیات اور اسرارقرآنی وغیرہ جیسی معرکة الآرا ٔ کتب ورسائل کے مصنف
مختصر سوانح حیات:
حجة الاسلام امام محمد قاسم النانوتوی نوراللہ مرقدہ تیرہویں صدی ہجری کی ان عبقری شخصیات میں سے ہیں جنہوںنے عالم اسلام کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ ہندوستان میںتجدید دین اسلام کے دو عظیم مجدیدین یعنی ١٦ویں صدی عیسوی کے مجددالف ثانی قدس سرہ العزیز اور١٨ویں صدی عیسوی کے امام الہندحضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نوراللہ مرقدہ کے بعد ١٩ویں صدی عیسوی میں امام محمد قاسم النانوتوی قدس سرہ العزیز نے تجدید دین کا اہم ترین کارنامہ انجام دیا۔ آپ علوم ولی اللہی کے آخری امین تھے اور ہندوستان میں فکرولی اللہی کو محفوظ کردینے کا عظیم الشان کارنامہ آپ نے ہی انجام دیا۔ دارالعلوم دیوبند کی تاسیس حضرت الامام کا وہ عظیم کارنامہ ہے جس نے فکر ولی اللہی کو فکر قاسمی کا نام دیا اور بعد کے آنے والے وقت نے اسی فکرولی اللہی کی تشریح فکر قاسمی میں دیکھی۔ علمائے ہند نے امام نانوتوی قدس سرہ العزیز کو فکر ولی اللہی کا سب سے عظیم شارح اور سب سے عظیم محافظ تسلیم کیا ہے۔ اسی لیے ہندوپاک کے علمی حلقوں میں فکر قاسمی کو فکر ولی اللہی کا مترادف تسلیم کیا جاتا ہے۔
امام محمد قاسم نانوتوی قدس سرہ العزیز کے نام کا آپ کی شخصیت پر زبردست اثر پڑا۔حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا ارشاد ہے، 'انما انا قاسم واللہ یعطی' حجة الاسلام امام نانوتوی کو ان کے والدین نے جب 'قاسم' نام دیا ہوگا تو انکے خواب و خیال میں بھی یہ نہ آیا ہوگا کا کہ انکا یہ بیٹا اس نام کا کما حقہ حق ادا کر دیگا۔امام نانوتوی نے 'قاسم العلوم والخیرات' بن کر جس طرح علوم نبوی ۖکو تقسیم کرنے کا عظیم الشان کارنامہ انجام دیا ہے وہ انکی قاسمی نسبت کا عملی مظہر ہے۔
امام نانوتوی کی پیدائش ١٨٣٢ء میں دیوبند کے نزدیک قصبہ نانوتہ میں ہوئی۔ آپ کے والد ماجد کا نام شیخ اسدتھا۔ امام نانوتوی کا سلسلۂ نسب امیر ا لمؤمنین سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔امام محمدقاسم نانوتوی علیہ الرحمہ مکتبۂ فکر ولی اللہی کے آخری خوشہ چیں ہیں۔حضرت الامامنے علوم حدیث امام عبدالغنی مجددی نوراللہ مرقدہ سے حاصل کئے۔ آپکے برگزیدہ اساتذہ کی فہرست میں اس وقت کے معروف محدث حضرت مولانا احمد علی سہارنپوری رحمة اللہ علیہ کا نام بھی شامل ہے۔ہندستان میں علوم نبوت کے مایۂ ناز مرکزولی اللہی مدرسہ میں زانوئے تلمذطے کرنے سے قبل حضرت الامام نے مولانا مملوک علی سے منطق،فلسفہ اور علم کلام کی کتابیں پڑھیں۔ ا مام محمد قاسم نانوتوی نے اپنی صوفیانہ حیات حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی قدس سرہ العزیز کے دست حق پر بیعت کرکے گزاری اور آپ کو مہاجر مکینے اپنی خلعت خلافت سے سرفراز فرمایا۔دوران تعلیم ہی حضرت الامام کی ذہانت، علم وفضل اور بصیرت ایمانی کی شہرت عام ہوگئی تھی۔ اسی لئے امام محمد قاسم کے نامور ہم عصر اور علیگڑہ مسلم یونیورسٹی کے بانی سر سید احمد خان مرحوم نے امام کے علم وفضل، تقوی اور فہم وفراست کے بارے میں لکھا ہے:
لوگوں کو خیال تھا کہ بعدجناب مولوی محمد اسحاق صاحب کے کوئی شخص ان کی مثل ان تمام صفات میں پیدا ہونے والا نہیں ہے، مگر مولوی محمد قاسم صاحب نے اپنی کمال نیکی، دینداری اورتقوی اور ورع ومسکینی سے ثابت کردیا کہ اس دلی کی تعلیم وتربیت کی بدولت مولوی محمد اسحاق صاحب کی مثل اور شخص کو بھی خدا نے پیدا کیا ہے بلکہ چند باتوں میں ان سے زیادہ۔
محمدقاسم نانوتوی سے الامام وحجة الاسلام تک کا سفر :
صدر شعبہ تفسیر دارالعلوم ندوةالعلمأ،لکھنؤمولانامحمد برہان الدین قاسمی سنبھلی کے الفاظ میں (حجة الاسلام الامام محمد قاسم نانوتوی حیات، افکار،خدمات، ص٢٩٩):
''ہندوستان کی علمی جامع تاریخ ''نزہةالخواطر'' (نیا نام : الأعلام بمن فی تاریخ الھند فی الاعلام) کے بالغ النظر مرتب و مصنف ، جو ایک ایک حرف ناپ تول کر لکھنے کے لئے مشہور ہیں ، نے ہندوستان کے قریبی زمانے کے علمائے کبار میں صرف دو شخصیتوں کے لئے ''الامام'' استعمال کیا، ایک شہرۂ آفاق درس نظامی کے بانی ملّانظام الدینفرنگی محلی کے لئے دوسرے ہم سب کے ممدوح و محسن حضرت مولانامحمد قاسم نانوتوی کے لئے، بلکہ دونوں شخصیتوں کا تذکرہ ایک ہی طرح کے القاب سے شروع کیا ہے، یعنی ''الشیخ الامام العالم الکبیر''۔
حضرت الامام کا تجدیدی سفرعلوم نبوت کے ایک طالب علم محمد قاسم نانوتوی سے شروع ہوتا ہے اور اسکی تکمیل محض ٤٧سال کی عمر میں ''الامام'' و ''حجة الاسلام'' جیسے جلیل القدر القاب پر پہونچ کر ہوتی ہے۔ داراصل اس سفر کی ابتداء محض ١٧ سال کی عمر میں بخاری شریف (اصح الکتب بعد کتاب اللہ) پر حاشیہ لکھنے جیسے وقیع کام سے ہوتی ہے۔ اسکے بعد تجدید دین کے عظیم الشان و زندہ جاوید کارناموں میں ہندواور عیسائی مبلغین سے دندان شکن مناظرے کرکے اسلام کی عظمت اور رفعت میں چار چاند لگا دینا، مسلمانوں کے اندر رائج بیہودہ اور قبیح رسموں کے خلاف جہاد چھیڑ نا، ان قبیح رسموں اور بد عقائد کی بیخ کنی کرکے اسلام کو تپ کر نکھر ے ہو ئے سونے کی طرح عالَم کے سامنے پیش کرنا اور نکاح بیوگان کا عظیم تجدیدی کارنامہ اپنے ہی گھر سے انجام دینا حجة اللہ فی الارض المجدد حضرت الامام محمد قاسم النانوتویکو اس مقام پرپہونچا دیتا ہے جہاں پر اس امت نے کبھی امام ابوحنیفہ،امام الغزالی ،حافظ ابن حجر عسقلانی،شیخ الاسلام ابن تیمیہ ،مجد د الف ثانی،امام الہند شاہ ولی اللہ محدث دہلوی جیسی عبقری شخصیات کو کھڑے دیکھا تھا۔تجدید دین کے عظیم کارناموں میںامامکے قلم سے نکلے ہوئے علوم و حکمتِ قاسمیہ کے وہ نادر شہ پارے بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں جو مسلکِ حق کی اساس بنے۔امام نانوتوی کے یہی رسائل ، کتب ،مخطوطات و مکاتیب دین حنیف کے اسرار رموز اور معرفت کو اپنے اند ر سمو کر جاء الحق وزھق الباطل کی تفسیروتشریح بن گئے ہیں۔
اور پھر اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک عظیم مجدد ایسا کارنامہ انجام دے ڈالے جو دین متین اور علوم شریعہ کی خدمت کا ایسا ذریعہ ہو جو رہتی دنیا تک مجدد کی تجدید ی صلاحیت و فراستِ ایمانی وحکمت ودانائی کی زندہ مثال بنا رہے۔ اسی محمد قاسم نانوتوی نے دارالعلوم کی شکل میں ایک شجرطوبٰی کا بیج بو دیا جو آج دارالعلوم دیوبند کی شکل میں ایک تناور درخت ہے۔
محض ٤٧ سال کی قلیل حیات ِ جسمانی میں میدان جہاد سے لیکر،مناظروں کے علمی میدان ،جدید علم کلام او ر فلسفئہ دین کی بنیاد رکھنے ،اوراپنی معرکة الآراء تصانیف کے ذریعے علوم شرعیہ کی عظیم الشان تشریحات تک اور عملی تجدیدی اقدامات سے لیکر علم وحکمت و دانائی کے مراکز کے قیام تک محمد قاسم النانوتوی کے ایسے کارنامے ہیں جو یقیناا ن کو محمد قاسم سے ''الامام'' و ''حجة الاسلام'' کے جلیل القدر مقام پر فائز کرتے ہیں۔